اردو خبریں

عزیز دوستو موجود سیاسی صورتحال کے بارے میں دنیا ٹی کی تیار شدہ کارٹونی شکل میں مزاخیہ فلط دیکھیں<

http://dunyanews.tv/index.php?key=Q2F0SUQ9c2l5YXNp

——————————–

ہم اپنے اردو قائرین کو درج ذیل کتب کے مطالعیہ کی تجویز دیتے ہیں جو ایک پاکستانی کیتھلک مفکر جیم فے غوری نے قلم بند
کی ہیں


————————
16 نومبر 2011 کو پاکستانی وزیر مملکت اکرم مسیح گل نے پاپاۓ اعظم بینیڈکٹ سولویں سے ملاقات کی۔ اس موقع پر وزیر مملکت نے پاپاۓ اعظم کو پاکستان کی مثبت کاوشوں سے آگاہ کیا جو اقلیتوں کے تحفظ و ترقی کے لیے کی گئی ہیں ۔ پاپاۓ اعظم نے یہ سب سن کر پاکستان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا اور ان اقدامات کو سراہتے ہوے وزیر مملکت کی توجہ حالیہ واقعیات کی جانب دلوائی جو چند انتہا پسندوں کی سرگرمیوں کا نتیجہ ہیں ۔
اسی دوپہر وزیر مملکت نے پاپائی یونیورسٹی کے ریکٹر آرچ بشپ اینریکو دال کوّلو اور پروفیسر موبین شاہد سے بھی ملاقات کی ۔ وزیر مملکت کی گزارش پر آرچ بشپ نے اسلام اور مسیحت کے مابین ہم گہنگی کو فروغ دینے کی خاطر دعوت دی کے پاکستان سے مسلم پروفیسر و طلبہ اس یونیورسٹی میں تحقیق و تعلیم کے لیے آ سکتے ہیں ۔ اسکے ساتھ ساتھ یونیورسٹی وفاقی وزارت براۓ قومی ہم آہنگی کے ساتھ مذاہب کے مابین ہم آہنگی کو فروغ دینے کے مقصد سے کانفرنسیں انعقاد کرنے کو تیار ہے۔ آرچ بشپ نے اس معاونت کی ذمہ داری پروفیسر موبین شاہد کو سونپی ہے ۔
Ministro Akram Gill con il Papa Benedetto XVI 16 Novembre 2011

——————————

عزیز دوستو آپکے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور اردو زبان میں پیش خدمت ہے

مطالعہ کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کریں

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور اردو میں

 

———————————————————————————————————————-
قومی اقلیتی دن
11 اگست بروز جمعرات
شام 18:30

بمقام: بازیلیکا بارتولومئی روم

 

عزیز دوستو!
اطالوی پاکستانی مسیحی تنظیم بھرپور جوش و خروش سے قومی اقلیتی دن منا رہی ہے ۔ 11 اگست بروز جمعرات تنظیم کا ایک وفد روم میں بازیلیکا بارتولومئی شام 18:30 شہباز بھٹی کی یاد میں اپنی عقیدت کا اظہار کرے گی ۔ بازیلیکا بارتولومئی میں شہید شہباز بھٹی کی ذاتی بائبل یاد گار کے طور پر موجود ہے جو وہ روزانہ صبح دعا کرنے کے لیے پڑھا کرتے ۔ یاد رہے کے پاپاۓ اعظم جان پال دوئم نے بازیلیکا بارتولومئی کو تیسرے ہزار سال کے شہدا سے وقف کیا ہے ۔ وہاں دنیا کے تمام بر اعظموں سے کیتھلک شہدا کی یادگاریں موجود ہیں ۔
اس موقع پر پاکستان کی سلامتی اور وہاں امن کے قیام کے لیے بھی دعا کیجاۓ گی ۔ 11 اگست 1947 کو باباۓ قوم قائد اعظم محمد علی جناع نے پہلی قومی اسمبلی سے خطاب میں پاکستان کے تمام شہریوں کے لیے مساوی حقوق اور آزادی جیسی ترجیحات کی بات کی ۔ شہید شہباز بھٹی کا بھی یہی خواب تھا کے باباۓ قوم کے تصور کو حقیقت کا جامہ پہنایا جا سکے ۔
اردو قائرین کے لیے شہید شہباز بھٹی کی روحانی وصیت قومی زبان میں پیش خدمت ہے:
شہباز بھٹی کی روحانی وصیت

میری جڑیں
میرا نام شہباز بھٹی ہے ۔ میں پاکستان میں تمام اقلیتوں کے اتحاد (اے پی ایم اے)، جو پاکستان کی پسماندہ حال برادری اور اقلیتوں کی نمائندہ تنظیم ہے، کا ڈائریکٹر ہوں۔ یہ تنظیم ضرورت مندوں ، غریبوں ، پسماندہ حالوں اور خاصکر مسیحیوں اور پاکستان کی دیگر مذہبی اقلیتوں کو مدد فراہم کرتی ہے ۔ میں ایک کیتھلک خاندان میں پیدا ہوا ۔ میرے والد ، جو پہلے استاد اور اب پیرش کی کونسل کے صدر ہیں، اور میری والدہ ، جو گھریلو عورت ہیں ، نے میری پرورش مسیحی اقدار اور بائبل مقدس کی تعلیمات ،جنہوں نے میرے بچپن کو کافی متاثر کیا ، کے مطابق کی ہے ۔ بچپن ہی سے جب میں گرجہ جاتا تو تعلیمات، قربانی اور مصلوب یسوع مسیح کو بہت متاثر کن پاتا ۔ یسوع مسیح کی محبت ہی کے باعث میں نے کلیسیا کے لیے اپنی خدمات سرانجام دینے کا فیصلہ کیا ۔ میں نے الطار کی خدمت کرنا شروع کی اور اسطرح مقامی کاہنوں کے لیے پاک ماس کے دوران مدد فراہم کی۔ اس طرح مجھے انکے ساتھ مختلف گاوں دیکھنے اور مسیحی برادری کی مشکلات جاننے کا موقع بھی ملا ۔
مسیحیوں کی بدحالی دیکھ کر میں حیران پریشان رہ گیا ۔ مجھے پاشکا کا ایک جمعہ بخوبی یاد ہے جب میں صرف تیرہ سال ہی کا تھا : میں نے یسوع مسیح کی ہماری اور ساری دنیا کی نجات کے بارے میں کاہن کی تبلیغ سنی ۔ اسطرح مجھے یسوع مسیح کی محبت پر غور کرنے کا موقع ملا اور میں نے دوسرے بہنوں اور بھائیوں کے لیے محبت کا جواب دینے کے بارے میں سوچا ۔ اسطرح میں نے یسوع کی محبت اور قربانی کی گواہی دینے کی جانب پہلا قدم اٹھایا اور سب سے پہلے مسیحیوں اور خاصکر غریبوں کی خدمت شروع کی ، ان میں وہ حاجت مند اور اذیت سے گزرنے والے شامل تھے جو اس اسلامی ملک میں بستے ہیں ۔
اس محبت میں بہتر طور پر شریک ہونے کی خاطر میں نے اپنے پیرش کے کچھ نوجوانوں کے ساتھ ملکر ایک گروہ تشکیل دیا ۔ ہم نے بائبل کا مطالعہ شروع کیا اور غریب طلبہ کی مدد بھی کی ۔ ہم بائبل کا مطالعہ کرتے اور رسولوں کا عقیدہ پڑھتے اور دوسرے مسیحی طلبہ کو اپنے گروہ میں شریک ہونے کی دعوت دیتے تاکہ وہ اکٹھے ملکر بائبل کا بہتر علم حاصل کر سکیں جو ہم سب کے لیے روشنی کا سرچشمہ ہے ۔ جب میں یونیورسٹی گیا تو میں نے ایک مسیحی تنظیم تشکیل دی تاکہ مسیحی نوجوانوں کو اکٹھے کیا جا سکےاور دوسروں کی مدد کیجا سکے ۔ بہت سے مسیحی طلبہ یونیورسٹی میں بد سلوکیوں کا شکار تھے انہیں نہ صرف ذد و کوب کیاجاتا بلکہ وہ تشدد کا بھی شکار تھے کیونکہ یونیورسٹی میں موجود انتہا پسند اسلامی گروہوں کو وہ نا پسند تھے ۔ وہ الگ تھلگ ہو کے رہ گئے تھے مگر ہم نے انکی مدد کی ۔ اس وقت مجھے بھی اسلامی تنظیموں نے مارا پیٹا ۔ مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی گئی اور کہا گیا کے اگر میں مسیحی تنظیم بناتا ہوں تو وہ مجھے نہیں چھوڑیں گے ۔ میں نے جواب دیا: ” نہیں ، میں کسی کو تنگ نہیں کر رہا ۔ میں صرف اپنے مسیحی بہن بھائیوں کے لیے ایک تنظیم کی بنیاد رکھ رہا ہوں “۔ انہوں نے جواب دیا کے وہ مجھے اسکی اجازت نہیں دے سکتے تھے ۔ اس دن کے بعد انہوں نے مجھے بہت ذد و کوب کیا اور یہ کام جاری رکھنے کی صورت میں مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی ۔
میں آپکو اپنی گواہی میں شریک کرتا ہوں : ایک مرتبہ جب مجھے پیٹا گیا تو میں اپنے ایک پروفیسر کے پاس گیا تو اس نے مجھے بتایا کے وہ میرے لیے کچھ نہیں کر سکتا ۔ ایک مرتبہ پھر میں نے یونیورسٹی میں مسیحی طلبہ کو اکٹھے کیا اور مجھے پھر سے مارا گیا ۔ یونیورسٹی میں ایک بورڈ لگا تھا جہاں ہر تنظیم اپنی سرگرمیوں کے بارے میں اعلانات لگا سکتی تھی ۔ اسطرح دوسرے دن میں نے اپنا ایک اشتہار وہاں لگا دیا: ” میں اپنے یسوع کے لیے مر سکتا ہوں لیکن میں اپنے بہنوں بھائیوں ، خاصکر طلبہ کو اکٹھا کرنے سے رک نہیں سکتا “۔
میرے اس پیغام نے بہت سے دوسرے مسیحی طلبہ کو اکٹھے کیا اور ہماری تنظیم کے مقاصد و تصورات کو اپنا لیا ، جو اصل میں پسماندہ حال مسیحیوں کو اذیت اور مسلم اکثریت کی جانب سے تعصب کی زنجیروں سے آزاد کرنا تھا ۔ اسطرح ہم نے اس جنگ میں اپنی طاقتوں کو اکٹھا کیا: ہم نے غریب طلبہ کو مفت پڑھایا اور انہیں کتابیں بھی مفت دیں؛ تاکہ مسیحی طلبہ ابتدائی سے اعلی تعلیم تک آگے جا سکیں اور تاکہ وہ اپنے ملک کے کارآمد شہری بن سکیں اور اپنی قوم کی مدد بھی کر سکیں۔ (۔۔۔)

میں یسوع کی خدمت کرنا چاہتا ہوں
مجھے اعلی حکومتی ملازمتوں کی پیشکش کی گئی تاکہ میں اپنی جنگ بند کر دوں مگر میں نے ہمیشہ نہ کی اور اپنی زندگی بھی داو پر لگا
دی ۔ میرا ہمیشہ ایک ہی جواب رہا: “نہیں ، میں یسوع کی خدمت ایک عام شخص کی طرح کرنا چاہتا ہوں”۔ مجھے اپنی عقیدت سے تسلی ہے ۔ نہ تو مجھے شہرت چاہیے اور نہ ہی مجھے کسی اختیار کی تمنا ہے ۔ میں صرف یسوع کے قدموں میں جگہ کی خواہش رکھتا ہوں ۔ میں چاہتا ہوں کے میری زندگی اور میرا کردار ، میرے اعمال میرے بارے میں بات کریں اور وہ یہ کہہ سکیں کے میں یسوع مسیح کے نقش قدم پر چل رہا ہوں ۔ یہ خواہش میرے اندر اسقدر مظبوط ہے کے میں اپنے آپکو خوش قسمت سمجھونگا اگر میری اس جنگ میں، جہاں میں غریبوں ، حاجت مندوں ، پاکستان کے تشدد کے شکار مسیحیوں کی مدد کرتا ہوں ، یسوع میری زندگی کی قربانی بھی قبول کرتا ہے ۔ میں یسوع مسیح کے لیے زندہ رہنا چاہتا ہوں اور اسی کے لیے مرنا بھی چاہتا ہوں ۔ مجھے اس ملک میں کسی قسم کا خوف نہیں ۔ بہت دفع انتہا پسندوں نے مجھے قتل کرنے، قید کرنے کی کوشش کی ہے انہوں نے مجھے دھمکیاں دیں ہیں اور میرے خاندان کو نہ صرف اذیت پہنچائی بلکہ انہیں خوف ذہ بھی کیا ہے ۔ انتہا پسندوں نے تو میرے والدین کو میرے مشن سے روکنے یعنی غریبوں اور ضرورت مند مسیحیوں کی مدد سے بھی روکنے کا کہا نہیں تو میں موت کا شکار بھی ہو سکتا ہوں ۔ لیکن اسکی بجاۓ میرے والد نے ہمیشہ میری حوصلہ افزائی کی ہے ۔ میں کہتا ہوں کے جب تک میں زندہ ہوں ، میری آخری سانس تک ، یسوع مسیح اور اس دکھی انسانیت اور ضرورت مند مسیحیوں اور غریبوں کی مدد کرونگا ۔ میں آپکو بتانا چاہونگا کے بائبل مقدس اور یسوع مسیح کی زندگی میرے لیے بہت بڑی روشنی ہیں ۔ جتنا زیادہ میں عہد جدید اور عہد عتیق میں کلام خدا کا مطالعہ کرتا ہوں اتنا ہی زیادہ میرے اندر قوت اور فیصلے کی مضبوطی بڑھتی ہے ۔ جب میں اس بات پر غور کرتا ہوں کے یسوع مسیح نے ہر شے کی قربانی دے دی اور خدا باپ نے ہماری خاطر اپنے بیٹے کو نجات کی خاطر بھیجاتو میں سوچتا ہوں کے میں کس طرح کلوری کی اس پہاڈی پر چڑھ سکتا ہوں ۔ ہمارے خداوند نے کہا: ” میرے پاس آؤ ، اپنی صلیب اٹھا اور میرے پیچھے ہو لو”۔ بائبل مقدس کی وہ آیات جو مجھے بہت پسند ہیں کچھ یوں کہتی ہیں: “میں تمہارے پاس اس وقت آیا جب میں بھوکا ، پیاسا اور قیدی تھا”۔ اسطرح جب میں غریب اور ضرورت مند لوگ دیکھتا ہوں تو میں سوچتا ہوں کے یسوع انکی شکل میں میرے پاس آیا ہے ۔ اسی وجہ سے میں ہمیشہ انکی مدد کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور یہ کوشش میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ کرتا ہوں تاکہ ہم حاجت مندوں ، بھوکوں اور پیاسوں کی مدد کر سکیں ۔

———————————————————————————

پروفیسر موبین شاہد سینٹ اجیڈیو اور شہید شہبازبھٹی کے ساتھ صدر پاکستان کے ملاقات کے موقع پر1 اکتوبر 2009

پروفیسر موبین شاہد سینٹ ایجیڈیو اور شہید شہباز بھٹی کے ساتھ صدر پاکستان کے ساتھ ملاقات کے دوران
————————————————————————————

خبریں
مشرف کی پاکستان میں آمد

————————————————————————————
جیو ٹی وی پر پروفیسر احمد غامدی دیگر مفکرین کے ہمرا تصوف بطور متوازی مذہب کے موضوع بر بات کرتے ہوے۔ اس لنک کو چار اقساط میں یہاں دیکھا جا سکتا ہے:

پاکستانی مسیحی تنظیم نے روم میں شہباز بھٹی کی یاد میں پاک ماس کی جسکی صدارت کارڈینال یان لوئی توران نے کی ۔ پاک ماس میں پاکستانی کلیسیا کے نمائندگان کے ساتھ اطالوی پارلیمنٹ اور اطالوی وزارت براے خارجہ امور کے نمائندگان بھی موجود تھے ۔ پاک ماس کو مندرجہ ذیل لنک پر دیکھا جا سکتا ہے :

http://www.youtube.com/watch?v=xRGYZ4uDPuI

پروفیسر موبین شاہد نے پاپاۓ اعظم بینیڈکٹ سولویں کو اپنی فلسفے کی کتاب تحفہ میں پیش کی : Prof Mobeen gifts his book to the Holy Father Benedict XVI

  1. Al momento, non c'è nessun commento.
  1. No trackbacks yet.

Lascia un commento